پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)

Post Traumatic Stress Disorder (PTSD)

تعارف :

ہماری روزمرہ کی زندگی میں کبھی بھی کسی کے ساتھ کوئی خوفناک یا المناک  سانحہ ہو سکتا ہے جب انسان ہر چیز اپنے قابو سے باہر محسوس کرتا ہے، جیسے کوئی کار حادثے کا شکار ہو سکتا ہے، کسی ذاتی حملے میں زخمی ہو سکتا ہے یا کسی شدید حادثے کا قریب سے مشاہدہ کر سکتا ہے۔ پولیس، فائر بریگیڈ یا ایمبولینس میں کام کرنے والے افراد کو عام طور سے اس طرح کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ اکثر خوفزدہ کرنے والے حادثوں کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ فوج کے سپاہیوں کو جنگ میں گولی لگ سکتی ہے، وہ بم سے زخمی ہو سکتے ہیں یا اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ یہ حادثے پیش آتے ہوئے قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔

اکثر لوگ اس نوعیت کے حالات سے بغیر کسی مدد کے گزر جاتےہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں یہ المناک سانحے جسم اور ذہن میں کچھ ایسی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو مہینوں اور سالوں جاری رہ سکتی ہے۔ اس کیفیت کو پی ٹی ایس ڈی ( پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ) کہتے ہیں۔

پی ٹی ایس ڈی کیسے شروع ہوتا ہے ؟

یہ کیفیت کسی بھی المناک یا  خطرناک سانحے کے بعد شروع ہو سکتی ہے  مثلاً جس میں انسان کو اپنی جان خطرے میں محسوس ہو یا وہ دوسرے لوگوں کو زخمی ہوتا یا مرتا ہوا قریب سے دیکھے۔

ان  المناک یا خطرناک سانحوں کی چند مثا لیں مندرجہ ذیل ہیں؛

 ٹریفک کے شدیدحادثے

 خطرناک ذاتی حملہ ( جنسی تشدد ، جسمانی تشدد ، ڈکیتی ، سر ًَراہ ہتھیار  دکھا  کر لوٹ لیا جانا)

 یر غمال بنا لیا جانا

 دہشت گردی کا شکار ہونا

 جنگی قیدی بن جانا

 قدرتی یا انسان کے پیدا کیے ہوئے آفات  و حادثات کا شکار ہونامثلاً سیلاب آنا یا کسی عمارت کا گر جانا

 کسی جان لیوا بیماری کی تشخیص۔

بعض اوقات کسی عزیز یا رشتہ دار کی غیر فطری ، پر تشدد موت کی خبر سننے 

سے بھی پی ٹی ایس ڈی کی بیماری شروع ہو سکتی ہے۔

پی ٹی ایس ڈی کب شروع ہوتا ہے ؟

پی ٹی ایس ڈی کی علامات کسی بڑے سانحے سے دو چار ہونے کے بعد چند ہفتوں یا مہینوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ عمومی طور پر یہ حادثے کے چھ ماہ کے اندر شروع ہو جاتی ہیں۔

پی ٹی ایس ڈی میں کیسا محسوس ہوتا ہے ؟

عام طور پر  اس مرض کا شکار ہونے والے افراد بہت افسردگی، بے چارگی، پریشانی یا غصے کی کیفیت محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اس صورتحال کے لیے الزام بھی دے سکتے ہیں۔

اوپر دی گئی جذباتی  کیفیات کے علاوہ پی ٹی ایس ڈی کی تین بنیادی طرح کی علامات ہوتی  ہیں؛

 ۱۔ وہ سانحہ بار بار یاد آنا، ڈراؤنے خوابوں کی شکل  میں نظر آنا،  یا ایسا محسوس ہونا کہ وہ واقعہ دوبارہ پیش آرہاہے

(Flashbacks and Nightmares)

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان اس خوفناک سانحے  کی کیفیت کو بار بار محسوس کررہا ہو جیسے کہ وہ دوبارہ اس میں سے گزر رہا  ہو ۔

یہ احساس بازگشت کی صورت یا بھیانک خواب کی صورت میں نمودار ہو سکتا ہے۔

یہ احساس حقیقت سے اتنا قریب ہوتا ہے کہ جیسے   مریض اس سانحے کا بار بار شکار ہو رہا ہو ۔

مریض ان تکلیف دہ  واقعات کو نہ صرف ذہنی طور پر سوچتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بھی ان کے اثرات  دوبارہ محسوس کرتا ہے مثلاً خوف، پسینہ آنا ، وہ آوازیں دوبارہ سنائی دینا، درد محسوس ہونا۔

۲۔ احساسات و جذبات کا شل ہونا اور اس واقعے کو یاد دلانے والی چیزوں اور باتوں سے  گریز کرنا۔

(Avoidance and Numbing)

کسی بڑے  ذاتی المناک سانحے کو بار بار محسوس کرنا اور اس سے بار بار گزرنا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ اس لئے اس احساس سے چھٹکارہ پانے کے لئے مریض اپنے آپ کو کسی دوسرے مشغلے میں مصروف کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ذہن اس طرف نہ جائے ۔ لوگ ان جگہوں یا لوگوں سے قطع تعلق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس واقع کی یاد دلائیں  حتیٗ کہ لوگ اس بارے میں بات کرنے سے بھی گریز کرنے لگتے ہیں۔

ان اذیت ناک احساسات کو قابو میں رکھنے کے لئے مریض اپنے جذبات کو بے حس یا شل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لوگوں سے بات چیت سے گریز کرتے ہیں، یہاں تک کہ دوسرے لوگ ان سے ملنا اور بات کرنا مشکل محسوس کرنے لگتے ہیں۔

۳۔ ہر وقت چوکنا رہنا یا خطرے میں گھرا محسوس کرنا۔

(Being "On Guard")

مریض ہر وقت چوکنا رہتا ہے جیسے کہ وہ ہر وقت خود کو  خطرے میں محسوس کررہا ہو۔ اس وجہ سے انسان سخت پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے اور پر سکون نہیں ہو پاتا۔ اس کیفیت کو (Hypervigilance) کہتے ہیں ۔ انسان خود کو بے چین محسوس کرتا ہے اور اس کی نیند خراب ہو جاتی ہے۔ چڑچڑاپن پیدا ہو جانااور چھوٹی چھوٹی بات پہ غصہ کرنے لگنا اس کیفیت کی دوسری علامات ہیں۔

دوسرے اثرات :

ذہنی دباؤ کے نتیجے میں نفسیاتی اثرات کے علاوہ یہ علامات بھی نمودار ہو سکتی ہیں؛

پٹھوں کا درد کرنا اور دکھنا۔

دست آنا

دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہو جانا

ڈپریشن

سر میں درد رہنا

کثرت شراب نوشی

دوائیوں کا بے جا استعمال مثلاً درد کی ادویات

بڑے سانحات  کے مضر اثرات کیوں ہوتے ہیں؟

ان اعصاب شکن واقعات کی وجہ سے انسان کا زندگی پر سے اعتبار اٹھنے لگتا ہے۔ ان واقعات کا براہ راست مشاہدہ انسان کو احساس دلاتا ہے کہ اس کی زندگی کسی بھی لمحے ختم ہو سکتی ہے۔ پی ٹی ایس ڈی کی علامات موت کے اس قدر قریب جا کر اس سے بچنے  کا قدرتی ردعمل ہیں۔

کیا تمام لوگ بڑے سانحات کے بعد پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہو جاتے ہیں ؟

نہیں ! تمام لوگ اس مرض کا شکار تو نہیں ہوتے مگر ان علامات کو کسی نہ کسی صورت میں حادثے کے ایک ماہ بعد تک محسوس کر سکتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ علامات انسان کو زندگی کے روزمرہ معمولات جاری رکھنے اور حادثے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ زیادہ تر افراد اگلے چند ہفتوں میں بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں اور اعصابی دباؤ (اسٹریس) میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

تقریباً ایک تہائی ا فراد اس ذہنی دباؤ کی کیفیت سے نکل نہیں پاتے ۔ یہ علامات جو ایک بڑے المناک سانحے  کا قدرتی ردعمل ہوتی ہیں  ان کا زیادہ عرصے تک جاری رہنا ایک مرض کی صورت اختیار کر لیتا ہےجسے پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں۔

کون سے عوامل پی ٹی ایس ڈی کی شدت کو بڑھا تے ہیں ؟

ابتدائی سانحہ  جتنا بڑا، جتنا شدید  اور خوفناک ہوگا اتنا ہی پی ٹی ایس ڈی شروع ہونے کا خدشہ بڑھ جاتاہے۔ اس طرح کے سانحات سب سے زیادہ شدید ہوتے ہیں؛

حادثے کا اچانک اور بے خبری میں واقع ہونا

اس کا لمبے عرصے تک جاری رہنا

انسان کا بے یارومددگار اور چنگل میں جکڑے ہوئے محسوس کرنا

انسان کی لائی ہوئی آفات

اس سانحے کے نتیجے میں بہت سی اموات کا واقع ہونا

اعضاء کا ضا ئع ہونا یا جسم کا مسخ ہونا

حادثے میں بچوں کا متا ثر ہونا

ذہنی دباؤ کیا ہے ؟

(Stress)

ہر انسان مختلف مواقع پر ذہنی دباؤ کو محسوس کرتا ہے۔ اسٹریس یا دباؤ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے؛

انسان کااپنے اندر بے چینی ، دباؤ یا بوجھ محسوس کرنا۔

زندگی کے وہ واقعات، حالات یا پریشانیاں جو  انسان پر ذہنی دباؤ ڈالتی ہیں مثلاً معاشی فکریں، روزگار کی فکر یا اس کا دباؤ ، تعلقات کا بوجھ یا کم آمدنی میں گزارہ کرنے کا بوجھ اور فکر، انہیں بھی اسٹریس کہا جاتا ہے۔ اکثر لوگ ان سارے حالات و واقعات کا کبھی نہ کبھی شکار رہتے ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ ڈپریشن ، پریشانی ، تھکاوٹ اور سر درد کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بعض جسمانی مسائل بھی زیادہ شدید ہو جاتے ہیں مثلاً السر کا درد زیادہ ہونا ، پیٹ کا درد اور جلد کے مسائل بڑھ جانا۔ یہ مسائل یقیناً پریشان کن ہوتے ہیں مگر ان کو پی ٹی ایس ڈی نہیں کہا جا سکتا۔

پی ٹی ایس ڈی کیو ں ہو جاتا ہے ؟

اس کی یقینی وجہ کا تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان وجوہات کی بنا پہ پی ٹی ایس ڈی ہو سکتا ہے؛

نفسیاتی  وجوہات :

جو واقعات بہت زیادہ خوفناک ہوتے ہیں ان کی یاد ذہن میں بہت واضح اور پختہ ہوتی ہے۔  اگرچہ ان کو یاد کرنا اذیت دیتا ہے مگر یہ یادیں انسان کو ان واقعات کو سمجھنے اور ان  کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

ان کی بار بار آنے والی یادیں انسان کو ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ان کے دوبارہ ہونے کی صورت میں ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں بھی مدد دیتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ ان واقعات کے بارے میں ان تکلیف دہ احساسات کے بغیر بھی سوچ سکے۔

ان االمناک سانحات کے بارے میں سوچنا تکلیف دہ اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ ان کے بارے میں سوچنے سے  گریز کرنا اور احساسات کا کسی حد تک شل ہوجا نا ان کی بار بار یاد آنے کی شدت کو اس حد تک کم  کر دیتا ہے کہ انسان ان کو کم از کم برداشت کر سکے۔

ہر وقت چوکنا رہنے کا احساس کسی حادثے کے دوبارہ ہونے کی صورت میں اپنے دفاع میں مدد دیتا ہے۔ اسکی ایک مثال زلزلے کا شکار ہونے والوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ زلزلوں کے دوسرے یا تیسرے جھٹکوں کی صورت میں یہ احساس لوگوں کو جلد محفوظ مقامات پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ اسکے علاوہ کسی ہنگامی صورت کے حالات میں یہی احساس امدادی کارروائیاں جاری رکھنے میں بھی کام آتا ہے۔

لیکن تمام زندگی انسان ان حادثات کو اس طرح بار بار یاد نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ان کو صرف بوقت ضرورت ہی یاد کرنا چاہتا ہے مثلاً جب کبھی اس سے مماثل صورت حال کا سامنا ہو تو ۔

جسمانی وجوہات :

 ایڈرینلین (Adrenaline) ایک کیمیکل ہے جو ہمارا جسم ذہنی یا جسمانی دباؤ کی صورت میں زیادہ مقدار میں پیدا کرتا ہے۔ یہ ہمیں نا گہانی حالات سے نمٹنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ جب اسٹریس کم ہو جائے تو خون میں اس کی مقدار  کم ہو کر روزمرہ کی حدود میں چلی جانی چاہیئے۔ پی ٹی ایس ڈی میں شاید ان واقعات کا بار بار یاد آنا اس کیمیکل کی مقدار کو کم نہیں ہونے دیتا جسکی وجہ سے انسان چڑ چڑا اور بے سکون محسوس کرتا ہے اور اس کی  نیند بھی  خراب ہوتی ہے۔

 ہپو کیمپس (Hippocampus)دماغ کا ایک جزو ہے جو یاداشت کو پراسیس کرنے میں مدد دیتا ہے.  اسٹریس میں جو ہارمون خون میں زیادہ مقدار میں شامل ہو جاتے ہیں جیسے کہ ایڈرینلین وہ ہپوکیمپس کو صحیح طور پہ کام کرنے سے روکتے ہیں۔ اس وجہ سے اس سانحے کی یادیں بار بار ذہن میں آتی رہتی ہیں اور کم ہی نہیں ہوتیں کیونکہ ہپو کیمپس ان یادوں پہ صحیح طرح سے کام ہی نہیں کر پاتا۔ جب اسٹریس کم ہو جائے اور ایڈرینلین خون میں اپنی عام مقدار پہ واپس آ جائے تو   ہپو کیمپس یادوں کو پراسیس کر پاتا ہے اور اس سانحے کی بار بار آنے والی تکلیف دہ یادیں اور ڈراؤنے خواب ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمیں یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ  ہم کسی المناک سانحے کے بعد ذہنی طور پہ اس سے صحتیاب ہو چکے ہیں ؟

جب آپ ؛

  ●  اس سانحے کے بارے میں بہت زیادہ پریشان ہوئے بغیر سوچ سکیں

  ● ہر وقت خطرے میں گھرا نہیں محسوس کر رہے ہوں

  ● اس حادثے کے بارے میں وقت بے وقت نہیں سوچ رہےہوں۔

بہت دفعہ پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص جلد کیوں نہیں ہو پاتی ؟

 ہم میں سے اکثر لوگ  تکلیف دہ واقعات اور احساسات کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔

ہم ان احساسات کے بارے میں اس خوف سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں کمزور اور ذہنی مریض نہ سمجھنے لگیں۔

صحت کے شعبے سے منسلک افراد بھی ہماری طرح انسان ہیں اور ان کے لئے بھی ان دہشت ناک واقعات کے بارے میں بات کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

 پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا افراد اسکی دوسری علامات مثلاً نیند نہ آنا، سر درد، ڈپریشن، چڑچڑاپن، منشیات کا استعمال یا تعلقات میں خرابی کے بارے میں بات کرنا زیادہ آسان محسوس کرتے ہیں۔

   مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہوں؟

کیا آپ کبھی کسی ایسے المناک سانحے یا بے انتہا تکلیف دہ واقع کا  شکار ہوئے ہیں جنکا ذکر اوپر کتابچہ میں کیا گیا ہے؟

اگر ہاں  تو کیا آپ نے کبھی مندرجہ ذیل علامات میں سے کچھ علامات کو محسوس کیا ہے؟

اس سانحے کی یادیں بار بار آپ کے ذہن میں آنا، ایسا بار بار محسوس ہونا کہ جیسے وہ حادثہ دوبارہ ہو رہا ہو، یا اس کے بارے میں بھیانک خواب آنا

ان چیزوں سے گریز کرنا جو حادثے کی یاد دلائیں

احساسات کا شل یا سن ہونا

چڑچڑاپن اور ہر وقت  شدید گھبراہٹ کا شکار محسوس کرنا جس کی وجہ آپ کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو

منشیات کا استعمال شروع کر دینا، شراب نوشی کثرت سے کرنا، کھانا زیادہ کھانے لگنا

اپنے احساسات اور جذبات پر قابو محسوس نہ کرنا

دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے لگنا

اپنے آپ کو جسمانی طور پر بہت مصروف رکھنے کی کوشش کرنا تاکہ جذبات پر توجہ مرکوز نہ ہو

اپنا دھیان مختلف مصروفیات کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کرنا

اداس اور تھکا تھکا محسوس کرنا

اگر یہ علامات اس سانحے کے چھ ہفتوں کے اندر شروع ہوئی تھیں اور وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں تو زیادہ امید ہے کہ یہ محض حادثے کا قدرتی ردعمل تھا ۔

ہاں ! اگر حادثے کے چھ  ہفتے گزرنے کے بعد بھی یہ علامات برقرار رہیں اور بہتر ہوتی محسوس نہ ہوں تو اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کر لیں۔

بچے اور پی ٹی ایس ڈی

پی ٹی ایس ڈی کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ چھوٹے  بچوں کو اکثر حادثات کے بعد ان کے بارے میں ڈراؤنے  خواب آتے ہیں جن میں کبھی کبھی بھوت اور اس طرح کی ڈراؤنی چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے کھیل میں بھی ان سانحات کو دہراتے ہیں  مثلاً کار حادثے کے بعد یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے اپنے کھلونوں سے اس حادثے کے منظر کو باربار دہراتے رہتے ہیں۔ وہ ان کھیلوں کو  جن میں پہلے انہیں مزا آّتا تھا چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں اس بات پر یقین نہیں رہتا کہ وہ بڑے ہونے تک زندہ رہیں گے۔وہ اکثر  پیٹ یا سر درد کی  شکایت کرتے ہیں۔

اگر کسی کو پی ٹی ایس ڈی ہو جائے تو کن باتوں سے فائدہ ہوتا ہے؟

آپ ان مندرجہ ذیل طریقوں سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؛

زندگی کی مصروفیات کو حسب معمول جاری رکھنے کی کوشش کریں۔

معمول کے فرائض سر انجام دینے کی کوشش کریں

حادثے کے بارے میں کسی اچھے دوست سے بات کریں

پر سکون رہنے کی ورزشیں سیکھنے اور باقاعدگی سے کرنے کی کوشش کریں

اپنی ملازمت پر جاتے رہنے کی کوشش کریں

ورزش باقاعدگی سے کریں اور کھانا وقت پر کھا ئیں

اس جگہ دوبارہ جانے کی کوشش کریں جہاں حادثہ ہوا تھا

اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں

گاڑی چلاتے ہوئے احتیاط کریں کیونکہ آپ کی توجہ اور قوت انہماک پر حا دثے کا اثر ہو سکتا ہے

عام معمولات میں بھی احتیاط کریں کیونکہ توجہ کی کمی کسی نئے حادثے کا سبب بن سکتی ہے

بہتر  ہونے کی امید رکھیں، مایوس نہ ہوں

اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں

ان چیزوں سے اجتناب کریں

اپنے آپ کو قصور وار گردانتے رہنا ۔ پی ٹی ایس ڈی کمزوری کی نشانی نہیں ہے ،یہ کسی شدید سانحے کے بعد کسی بھی شخص کو لا حق ہو سکتی ہے۔

اپنے احساسات اور جذبات کو بہت دبائے رکھنے کی کوشش کرنا۔ اگر آپ پی ٹی ایس ڈی کی علامات محسوس کر رہے ہیں تو انہیں اپنے آپ تک نہ رکھیں کیونکہ علاج سے عام طور سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔

اس سانحے کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرنا

ان علامات کے فوراً ختم ہو جانے کی توقع کرنا۔ یہ علامات ختم ہونے میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے۔

اپنے آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا۔ اپنے آپ کو تھوڑی رعایت دیں کیونکہ حادثے کے بعد معمول میں آنے میں وقت لگے گا۔

لوگوں سے ملنے سے گریز کرنا

کافی، سگریٹ یا شراب کا بکثرت استعمال 

حد سے زیادہ تھکا دینے والے معمولات میں خود کو مصروف کرنے کی کوشش کرنا۔

کھانے میں بے قاعدگی

چھٹیوں میں تنہا وقت گزارنا

یہ چیزیں بہتر ہونے میں رکاوٹ ڈال سکتی ہیں

دوسرے لوگ

 آپ کو اس حادثے کے بارے میں بات کرنے سے منع کرسکتے ہیں

آپ سے ملنے سے گریز کر سکتے ہیں

آپ پر بات بے بات غصہ کر سکتے ہیں

آپ کو کمزور  سمجھ  سکتے ہیں

آپ کو قصوروار ٹھرا سکتے ہیں

یہ لوگ ان مندرجہ بالا طریقوں سے اپنے آپ کو ان خوفناک واقعات  کے بارے میں سوچنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ کار آپکے لئے مفید نہیں ہے کیونکہ  اس طرح آپ اپنے مشاہدے اور احساسات کےبارے میں بات نہیں کر  سکیں گے جو آپ کو ان علامات پر قابو پانے میں مدد دیتا ہے۔

ان المناک سانحات کے بارے میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان بھیانک واقعات کے بعد انسان پر ایک بے خودی یا نیم بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے ارد گرد کی صورتحال غیر معمولی یا غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ اگر انسان حادثے کو لفظوں میں بیان نہ کر سکے ، اسے صحیح طریقے سے یاد نہ کر سکے یا اسے سمجھ نہ سکے تو پھر اس حادثے کی یادوں سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔

طریقہ علاج

جس طرح پی ٹی ایس ڈی کے دونوں  ذہنی اور جسمانی پہلو ہیں اسی طرح اس کے علاج کے بھی دو مختلف طریقہ کار ہیں ۔

 نفسیاتی طریقہ علاج

Psychotherapy

تمام ایسے نفسیاتی طریقہ علاج جو اس مرض میں کار آمد  ہیں وہ اس سانحے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی ایس ڈی کی علامات نمودار ہو ئیں ۔ ان میں ماضی کی زندگی پر بہت زور نہیں دیا جاتا۔ ان واقعات کو تبدیل کیا یا بھلایا تو نہیں جا سکتا جو پیش آ چکے ہیں مگر یہ طریقہ علاج اس حادثے کے بارے میں، اپنے بارے میں اور دنیا کے متعلق سوچنے کے انداز اور طریقوں کو بدلنے میں مدد دیتے ہیں۔

ضروری ہے کہ انسان اس المناک سانحے کو خوف اور دہشت کے احساسات سے مغلوب ہوئے بغیر پوری تفصیل سے یاد کر سکے۔ نفسیاتی طریقئہ علاج  آپ کو سکھاتا ہے کہ کس طرح اس المناک اور خوفناک سانحے  کو لفظوں میں بیان کیا جائے۔ ان تکلیف دہ واقعات  کو یاد کر کے اور ان کو بار بار سمجھنے کی کوشش کر نے سے انسان کا ذہن اپنا صحیح کام کرنے لگتا ہے یعنی کہ اس واقع کی یادوں کو دماغ کے معمول کے حصوں میں محفوظ کر لیتا ہے تاکہ ذہن اور کاموں کے لیے فارغ ہو جائے۔

اگر مریض اپنے آپ کو  دوبارہ سے محفوظ سمجھنا شروع کر دے اور اسے اپنے جذبات و احساسات  پر پھر سے قابو  حاصل ہو جائے تو تو اسے ان واقعات کی یادوں سے اتنا زیادہ گریز کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔آہستہ آہستہ اسے ان یادوں پر اتنا کنٹرول ہو جاتا ہے کہ صرف جب وہ چاہتا ہے تب ہی ان یادوں کے بارے میں سوچتا ہے اور اس سانحے کی یادیں ہر وقت اس کے ذہن پر حملہ نہیں کرتی رہتیں۔

کاگنیٹیو بیہیویئرل تھراپی (سی بی ٹی) ایک طرح کا نفسیاتی طریقہ علاج ہے جو پی ٹی ایس ڈی کے علاج میں مفید ہے۔ یہ طریقہ علاج مریض کو اپنی یادوں کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنے میں مدد دیتا ہے تاکہ یہ یادیں اور خیالات کم اذیت ناک اور قابل برداشت ہو جائیں۔اس میں عام طور سے اپنی گھبراہٹ کو کم کرنے کی ورزشیں بھی سکھائی جاتی ہیں تا کہ مریض اس المناک سانحے کے بارے میں بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر بھی سوچ سکے۔

آئی موومنٹ ڈی سینسٹائزیشن اور ری پراسیسنگ  (Eye Movement Desensitisation & Reprocessing)بھی ایک نفسیاتی طریقہ علاج ہے. اس میں آنکھوں کی حرکت کی مدد سے دماغ میں ان یادوں اور احساسات سے نمٹنے میں مدد لی جاتی ہے تاکہ دماغ  میں بار بار آنے والی اذیت ناک یادیں کم ہوں ۔ یہ طریقہ علاج تھوڑا عجیب سا تو محسوس ہوتا ہے مگر اسے موثر پایا گیا ہے ۔

گروپ تھراپی میں انفرادی طور کے بجائےاس طرح کے اور مریضوں کے ساتھ نفسیاتی علاج کیا جاتا ہے جو اسی طرح کے المناک سانحے سے گزرے ہو ئے ہوں۔ یہ احساس کہ گروپ میں موجود دوسرے لوگ شاید اس کے احساسات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہوں کیونکہ وہ بھی ملتے جلتے سانحات سے گزرے ہوتے ہیں مریض کو اس سانحے کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے میں مدد کرتا ہے۔

ادویات

 ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات اس مرض کی علامات کی شدت اور اس سے ملحقہ ڈپریشن کے احساس کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔   اگر ان سے افاقہ محسوس ہو تو کم از کم  بارہ ماہ تک ان کا استعمال جاری رکھنا چاہئے۔ اگر اس گروپ یعنی ایس ایس آر آئی سے فائدہ نہ ہو تو دوسری اینٹی ڈپریسنٹ ادویات  بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

بعض اوقات بیماری اور علاج کے ابتدائی ایام میں مریض اتنا بے چین اور پریشان محسوس کرتے ہیں کہ وہ نہ سو سکتے ہیں اور نہ کچھ سوچ سکتے ہیں۔ اس صورت میں دس بارہ دنوں کے مختصر عرصے کے لئے پر سکون کرنے والی ادویات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

کونسے طریقہ علاج موثر ہیں؟

سی بی ٹی ، ای ایم ڈی آر اور اینٹی ڈپریسنٹ کے موثر ہونے کے بارے میں تحقیقی ثبوت موجود ہیں۔ اس بارے میں ابھی مناسب ثبوت نہیں کہ ان میں سے کونسا طریقہ علاج زیادہ بہتر ہے۔ باقی طریقہ علاج اور کونسلنگ کے اس مرض میں موثر ہونے کے بارے میں ابھی کوئی تحقیق ثبوت موجود نہیں ہے۔

دوستوں ، عزیزوں اور جاننے والوں  کے لئے

کیا کرنا چاہیے؛

متاثرہ فرد کے رویے میں ان تبدیلیوں  پر توجہ دیں، یہ ان کے حادثے سےشدید متاثر ہونے کی طرف اشارہ کر تے ہیں؛  کارکردگی میں فرق آنا ، رویہ میں تبدیلی آنا ، کام پر دیر سے آنا ، بار بار کام سے چھٹی لینا ،   چھوٹے چھوٹے حادثوں میں بار بار ملوث ہوتے رہنا

ان باتوں پہ توجہ دیں؛ بڑھتا ہوا غصہ ، چڑچڑاپن ، ڈپریشن ، توجہ مرکوز نہ کر پانا

متاثرہ فرد کو سانحے کے بارے میں بات کرنے کا موقع دیں

ان سے بات کرنے سے گریز نہ کریں اور روزمرہ کی بات چیت جاری رکھیں

ان کی بات مکمل ہونے دیں، بیچ میں نہ ٹوکیں۔ ان کی بات کو روک کر اپنے مشاہدے سے موازنہ نہ کریں

کیا نہیں  کرنا چاہیے

حادثے سے متاثرہ فرد کو یہ جتلانا کہ آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہر انسان کے احساسات منفرد ہوتے ہیں

یہ احساس دلانا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کی جان بچ گئی ۔ یہ بات ان کی جھنجھلاہٹ کو بڑھا سکتی ہے

ان کے احساسات اور تکالیف کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرنا مثلاً یہ کہنا کہ "اب اتنا برا بھی نہیں ہوا۔  بس  اب اپنے اوپر قابو پاؤ، وغیرہ"

Read more to receive further information regarding a career in psychiatry